Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
3 - 145
وفی ردالمحتار (تنبیہ) اذا توافقا فی عدد مرکب وھو مایتألف من ضرب عدد فی عدد کخمسۃ عشر مع خمسۃ واربعین فان شئت قلت ھما متوافقان بجزء من خمسۃ عشر وان شئت نسبت الواحد الیہ بکسرین یضاف احدھما الی الاٰخر فتقول بینھما موافقۃ ثلث خمس اوخمس ثلث فیعبر عنہ بالجزء وبالکسور المنطقۃ المضافۃ بخلاف غیرالمرکب فانہ لایعبر عنہ الا بالجزء ۱؎ ۔
ردالمحتار میں ہے (تنبیہ) جب دو عدد کسی عدد مرکب میں باہم متفق ہوجائیں جوکہ ایک عدد کی دوسرے میں ضرب سے مؤلف ہوتاہے جیسے پندہ پینتالیس کے ساتھ۔ پس اگرتوچاہے تو یوں کہے کہ ان دونوں میں توافق پندرہ کی ایک  ایک جزء کے ساتھ ہے اور اگرتوچاہے تو واحد کی پندرہ کی طرف ایسی دوکسروں کے ساتھ نسبت کرے جن میں سے ایک دوسرے کی طرف مضاف ہوتی ہے، اور تویوں کہے ان دونوں کے درمیان موافقت پانچویں کے تہائی کے ساتھ ہے یاتہائی کے پانچویں کے ساتھ۔ چنانچہ اس کو جزء کے ساتھ اورکسور منطقہ جوکہ ایک دوسرے کی طرف مضاف ہوتی ہیں کے ساتھ تعبیر کیاجاتاہے بخلاف غیرمرکب کے کہ اس کو سوائے جزء کے تعبیرنہیں کیاجاسکتا۔
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الفرائض     باب المخارج         داراحیاء التراث العربی بیروت     ۵/ ۵۱۶)
وفی الفتاوی العالمگیریۃ ان کان الجزء المفنی للعددین اکثر من عشرۃ فانظر فان کان المفنی فردا او لا وھوالذی لیس لہ جزء صحیح ای لایترکب من ضرب عدد فی عدد کأحد عشر فقل الموافقۃ بینھما بجزء من احد عشر لانہ لایمکن التعبیر عنہ صحیحا بشیئ اٰخر وان کان العدد المفنی زوجا کالثمانیۃ عشرا وفردا مرکبا وھوالذی لہ جزء ان صحیحان اواکثر کخمسۃ عشر، فان شئت ان تقول کما قلت فی الفرد الاول ھو موافق بجزء من خمسۃ عشر وبجزء من ثمانیۃ عشروان شئت ان تنسب الواحد الیہ بکسرین یضاف احدھما الی الاٰخر فتقول فی خمسۃ عشربینھما موافقہ بثلث الخمس وفی ثمانیۃ عشر بثلث السدس وقس علیہ نظائرہ ۱؎ وفی مختصر الفرائض فان اتفقا فی الاثنین فھما متوافقان بالنصف وفی الثلث بالثلث وھکذا فی العشرۃ بالعشرون توافقا فی احد عشر اواکثر منہ یعبر بالجزء مثلا فی احد عشربجزء من احد عشر وفی اثنی عشر بجزء من اثنی عشر وھکذا۲؎ الخ ۔
اورفتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :  اگردوعددوں کو فناکرنے والا عدد دس سے زائد ہو توپھر نظرکر اگر وہ عدد فرد مفرد ہو، اور فردمفرد وہ ہے جس کی کوئی جزء صحیح نہ ہو یعنی وہ ایک عدد کی دوسرے میں ضرب سے مرکب نہ ہو جیسے گیارہ تواب کہہ کہ ان دونوں میں موافقت گیارہویں جزء کی ہے اس لئے کہ کسی دوسری شیئ کے ساتھ اس کی صحیح تعبیرممکن نہیں، اوراگر دوعددوں کوفناکرنے والا عدد زوج ہوجیسے اٹھارہ یافردمرکب ہو، ارفردمرکب وہ ہوتاہے جس کی دو یادوسے زائد جزئیں صحیح ہوں جیسے پندرہ، تو اس صورت میں اگرتوچاہے توایسے ہی کہے جیسا کہ تونے فرد مفرد میں کہاکہ اس میں توافق پندرہویں جزء کا ہے یا اٹھارہویں جزء کا۔ اگرچاہے تو واحد کو اس کی طرف ایسی دوکسروں سے منسوب کرے جن میں سے ایک دوسرے کی طرف مضاف ہوتی ہے، چنانچہ توپندرہ میں یوں کہے کہ یہ پانچویں کے تہائی میں موافق ہے اور اٹھارہ میں یوں کہے کہ یہ چھٹے کے تہائی میں موافق ہے اور اسی پردیگر نظائر کوقیاس کرلے۔ مختصر الفرائض میں ہے کہ اگر دوعدد، دو میں متفق ہوجائیں تو ان میں آدھے کاتوافق ہے اورتین میں متفق ہوں تو تہائی کاتوافق ہے یونہی دس تک کہ اس میں دسویں کاتوافق ہے اور اگر وہ دونوں گیارہ یا اس سے زائد میں متفق ہوں تو اس کو لفظ جزء کے ساتھ تعبیرکیاجائے گا مثلاً گیارہ میں گیارہویں جزء اور بارہ میں بارہویں جز، اور اسی طرح آخر تک۔
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ     کتاب الفرائض     الباب الثانی عشر     نورانی کتب خانہ پشاور     ۶ /۴۶۷)

(۲؎ مختصرالفرائض )
وفی زبدۃ الفرائض مولانا عمادالدین البکنی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ واگر در دوازدہ متفق شوند توافق بجزء من اثنی عشر، گویند یعنی توافق بحصہ دواز دہم چنانچہ بست وچہار وسی وشش وعلٰی ھٰذا القیاس درجمیع مراتب ۱؎ وفی زبدۃ الفرائض مولاناعبدالباسط القنوجی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ درمافوق العشرۃ بجزء وے کہ مضاف بسوئے عاد باشد تعبیرکنند پس دراحد عشربجزوے ازاحدعشر واثنی عشر بجزوے ازاثنی عشر وھکذا تاغیرنہایت۲؎۔
اورمولاناعماد الدین رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کی تصنیف زبدۃ الفرائض میں ہے کہ اگر دو عدد بارہ میں متفق ہوں تو کہیں گے کہ ان میں توافق بارہ کی ایک جز میں ہے یعنی توافق بارہویں حصہ میں ہے چنانچہ چوبیس اور چھتیس کی صورت میں توافق چوبیسویں اور چھتیسویں حصہ میں ہوگا، اوراسی پرقیاس ہوگا تمام مراتب میں۔ اور مولاناعبدالباسط قنوجی رحمہ اﷲ تعالٰی کی تصنیف زبدۃ الفرائض میں ہے کہ دس سے زائد عددوں میں اس عدد کی ایسی جزء کے ساتھ تعبیرکرتے ہیں جو جزء عددمفنی کی طرف مضاف ہوتی ہے چنانچہ گیارہ میں اس کی گیارہویں جزء اور بارہ میں اس کی بارہویں جزء، اسی تک غیرنہایت تک۔(ت)
 (۱؎ و ۲؎ زبدۃ الفرائض )
اور جب انتقال بعض ورثہ قبل ازتقسیم کیفیت مذکورہ سے ہوتو انہیں خارج من البین وکان لم یکن کرنا ھی اولٰی ہے نہ اقامت بطون وافراز تصحیحات۔
فی الفرائض الشریفیۃ (لوصار بعض الانصباء میراثا قبل القسمۃ) فنقول ان کانت ورثۃ المیت الثانی من عداہ من ورثۃ المیت الاول ولم یقع فی القسمۃ تغییر فانہ یقسم المال حینئذ قسمۃ واحدۃ اذلافائدۃ فی تکرارھا کما اذا ترک بنین وبنات من امرأۃ واحدۃ ثم مات احدی البنات ولاوارث لہا سوی تلک الاخوۃ والاخوات لاب وام فانہ یقسم مجموع الترکۃ بین الباقین للذکر مثل حظ الانثیین قسمۃ واحدۃ واحدۃ کماکانت تقسم بین الجمیع کذٰلک فکانّ المیّت الثانی لم یکن فی البین ۱؎، وفی الدرالمختار(مات بعض الورثۃ قبل القسمۃ للترکۃ صحت المسئلۃ الاولٰی) واعطیت سھام کل وارث (ثم الثانیۃ) الا اذا اتحد کأن مات عن عشرۃ بنین ثم مات احدھم عنھم۲؎،
فرائض شریفیہ میں ہے(اگربعض حصے تقسیم سے پہلے میراث ہوجائیں) تو ہم کہتے ہیں کہ اگرمیت ثانی کے ورثاء سوائے میت ثانی کے وہی ہین جو میت اول کے ورثاء ہیں اورتقسیم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو اس صورت میں مال کو ایک تقسیم کے ساتھ بانٹ دیاجائے گا کیونکہ تقسیم کی تکرار کاکوئی فائدہ نہیں۔ جیسے کسی شخص نے ایک ہی بیوی سے کچھ بیٹے اور کچھ بیٹیاں چھوڑی ہوں پھرایک بیٹی مرگئی جس کا ان حقیقی بہن بھائیوں کے سوا کوئی وارث نہیں تو اس صورت میں تمام ترکہ باقی بیٹوں اوربیٹیوں میں ایک ہی تقسیم کے ساتھ للذکرمثل حظ الانثیین کے مطابق اسی طرح تقسیم کریں گے جیسا کہ ان تمام بیٹوں اوربیٹیوں میں تقسیم ہوتاتھا گویا کہ میت ثانی درمیان میں تھا ہی نہیں،درمختار میں ہے ترکہ کی تقسیم سے پہلے وارثوں میں سے کوئی مرگیا تو پہلے مسئلہ کی تصحیح کرکے ہروارث کے حصے دئیے جائیں گے پھر دوسرے مسئلہ کی تصحیح کی جائے گی سوائے اس کے کہ دونوں مسئلے متحد ہوں، جیسے کوئی شخص دس بیٹے چھوڑ کر مرگیا پھر ان میں سے ایک باقی نوبھائی چھوڑ کر مرگیا۔
 (۱؎ الشریفیہ شرح السراجیہ    باب المناسخۃ  مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۹۱)

(۲؎ الدرالمختار  کتاب الفرائض     فصل فی المناسخۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۶۶)
وفی الفتاوی الھندیۃ ان کانت ورثۃ المیت الثانی ھم ورثۃ المیت الاول ولاتغیر فی القسمۃ تقسم قسمۃ واحدۃ  لانہ لافائدۃ فی تکرار القسمۃ۳؎،
فتاوٰی ہندیہ میں ہے اگرمیت ثانی کے ورثاء وہی ہوں جو میت اول کے ورثاء ہیں اور تقسیم میں کوئی تبدیلی نہ آتی ہو تو ایک ہی تقسیم کی جائے گی کیونکہ تقسیم کی تکرار میں کوئی فائدہ نہیں۔
 (۳؎ الفتاوٰی الھندیۃ     کتاب الفرائض     الباب الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور     ۶ /۴۷۰)
فی مستخلص الحقائق شرح کنزالدقائق (ان مات البعض قبل القسمۃ فصحح مسئلۃ المیت الاول واعطی سہام کل وارث ثم صحح مسئلۃ المیت الثانی) ھذا اذا کانت ورثۃ یرثون خلاف مایرثون من المیت الاول اما اذا کانوا یرثونہ بعینھم فلاحاجۃ الی التصحیحین کمالومات عن عشرہ ابناء ثم مات احدالبنین ولم یترک وارثا سواھم کذا فی الزاھدی وفی الزبدۃ الباسطیۃ ۱ ؎ بدانکہ اگرورثہ میت ثانی عین ورثہ میت اول باشند ونیزقسمت تغیر نباید بجہت آنکہ ازیک جنس بودند پس بنابراختصار میت ثانی راکالعدم شمارکردہ برتصحیح واحد اکتفا نمایند ۔
مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے اگروارثوں میں سے کوئی ترکہ کی تقسیم سے پہلے مرگیا تو پہلے میت اول کے مسئلہ کی تصحیح کرکے ہروارث کو حصے دئے جائیں گے پھر مسئلہ ثانی کے مسئلہ کی تصحیح کی جائے گی، یہ اس وقت ہوگا جب میت ثانی کے ورثاء میت اول کے ورثاء سے مختلف ہوں۔ لیکن اگرمیت ثانی کے ورثاء بعینہٖ میت اول کے ورثاء ہوں تو پھر دوتصحیحوں کی کوئی ضرورت نہیں جیسے کوئی شخص دس بیٹے چھوڑ کر فوت ہوا پھر بیٹوں میں سے ایک مرگیا اور اس نے سوائے اپنے مذکورہ نوبھائیوں کے کوئی وارث نہیں چھوڑا۔ یونہی زاہدی اور زبدہ باسطیہ میں ہے: توجان لے کہ اگرمیت ثانی کے ورثاء میت اول کے ورثاء کاعین ہوں اورتقسیم میں بھی کوئی تبدیلی نہ آتی ہو اس لحاظ سے کہ وہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں تواختصار کی بنیاد پرمیت ثانی کوکالعدم شمارکرتے ہوئے ایک ہی تصحیح پر اکتفاء کرتے ہیں۔
 (۱؎ مستخلص الحقائق شرح کنزالدقائق)
وفی مختصر الفرائض اعلم ان ورثۃ المیت الثانی ان کانواھم الوارثین للمیت الاول سوی المیت الثانی ولایتغیر التقسیم بموتہ تقسم الترکۃ علی الورثۃ الباقیۃ تقسیما واحدا ویجعل المیت الثانی کأن لم یکن فی البین مثلاً ترک واربعۃ ابناء و ثلاث بنات کلھم من زوجۃ واحدۃ ثم مات ابن واحد قبل القسمۃ وترک ثلثۃ اخوۃ وثلث اخوات لاب وام ثم ماتت اخت وترکت ثلٰثۃ اخوۃ واختین کانت المسئلۃ من الثمانیۃ لکل من الابناء الثلثۃ اثنان ولکل من البنتین واحد ویجعل الابن والبنت کأن لم یکونا فی البین۲؎ انتھت معھذا مطمح نظر علمائے فرائض دواما تقلیل سھام وتسھیل حساب کما لیس بخاف علی من لہ ادنٰی مرور فی زقاق ھذا لفن۔
مختصرالفرائض میں ہے : توجان لے کہ میت ثانی کے ورثاء اگر وہی ہوں جو بیت اول کے وارث بنتے ہیں سوائے میت ثانی کے۔ اور میت ثانی کی موت کی وجہ سے تقسیم میں کوئی تبدیلی نہ آتی ہو تو اس صورت میں ترکہ کو ایک ہی تقسیم کے ساتھ باقی وارثوں  پر تقسیم کیاجائے گا اور میت ثانی کو درمیان سے کالعدم قرار دے دیاجائے گا مثلاً کوئی شخص چاربیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑکرمرگیا جو کہ تمام ایک ہی بیوی سے ہیں پھر تقسیم سے پہلے ایک بیٹا مرگیا جس نے تین  حقیقی بھائی اور دوبہنیں چھوڑی ہیں تو مسئلہ آٹھ سے بنے گا تین بیٹیوں میں سے ہرایک کودو۲ دو۲حصے ملیں گے اور دوبیٹیوں میں سے ہرایک کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ اور مرجانے والے بیٹے اوربیٹی کو ایساسمجھاجائے گا گویا کہ وہ درمیان میں تھے ہی نہیں انتہت، اس کے باوجود ہمیشہ علماء فرائض کامطمح نظرسہام کوکم کرنا اور حساب کو آسان کرنا ہوتاہےجیسا کہ اس شخص پرمخفی نہیں جس کا اس فن کی گلیوں میں تھوڑا سا گزرہواہے۔(ت)
( ۲؎ مختصر الفرائض)
ولہٰذا درصورت تعدد عاد اکثر الاعداد کااعتبار فرماتے ہیں تاجزء وفق اقل ہو اور حساب اہون واسہل اوراصول ثلثہ تصحیح سے کہ بین السہام والرؤس مقرر ہیں نسبت تداخل کو محض روماً للاختصار خارج اوراگرسہام رؤس پرتقسیم ہوجائیں توتماثل ورنہ تو افق کی طرف راجع کرتے ہیں
ونظائر ذٰلک کثیرۃ وفی اسفار الفن مسطورۃ
 (اس کی نظیریں بہت ہیں جو اس فن کی بڑی بڑی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ت) اور پرظاہر کہ ورثہ مذکورین کو
کأن لم یکن
 (گویا کہ وہ نہیں تھا۔ت) کرنے میں اختصار قسمت اورخفت مؤنث اورحساب کی ہے اور اسی مقصود فن سے کمال مناسبت،
واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم۔
Flag Counter